لاہور سے ایک سو اٹھاون کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب ایک مشہور قصبہ آباد ہے جسے لوگ حویلی لکھا کے نام سے جانتے ہیں۔یہ قصبہ بہاولنگر، ہارون آباد، چشتیاں اور فورٹ عباس جیسے جنوبی پنجاب کے دوردراز علاقوں کو لاہور سے منسلک کرنے میں ایک اہم گزرگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس شہر کو پاک انڈیا کے سلیمانکی بارڈر پر پہلا اور اہم شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہ شہر گہل سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا۔سولھویں صدی کے آواخر اور ستھرویں صدی کے آغاز میں اوکاڑہ کے مشہور زمیندار لکھا وٹو اپنا آبائی علاقہ کتب کوٹ (موجودہ بھومن شاہ) چھوڑ کر جب گہل سنگھ آکر آباد ہوئے تو انہوں نے یہاں اپنی رہائش کے لیے ایک عالی شان حویلی تعمیر کروائی۔
لکھا وٹو کے آبائی علاقے کتب کوٹ موجودہ بھومن شاہ میں موجود قلعے کا ایک منظر
لکھا وٹو نے نئی جگہ پر علاقائی نمائندگی کے لیے اپنی حویلی میں ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کروایا جہاں رات میں ادھوری منزل کے مسافر شب بسیری کرتے۔آہستہ آہستہ اس حویلی اور مہمان خانے کی مقبولیت لوگوں میں بڑھتی گئی اور دوران سفر گہل سنگھ میں قیام کرنے والا ہر مسافر شب گزاری کے لیے تانگے والے سے ' لکھے کی حویلی' جانے کی فرمائش کرتا۔جس سے گہل سنگھ کے نام سے جانا جانے والا یہ گاؤں لکھے کی حویلی اور بعد ازاں حویلی لکھا کے نام سے مشہور ہو گیا۔حویلی لکھا کا ریلوے اسٹیشن ایک جنکشن شمار کیا جاتا تھا جہاں ملتان، قصور اور دہلی سے آنے اور جانے والی ٹرینیں مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی تھیں۔1965 کی جنگ میں بھارت کا ایک طیارہ پاکستانی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا جس کی باقیات آج بھی ٹاؤن کمیٹی حویلی لکھا میں موجود ہیں۔
1947 میں پاکستان آزاد ہونے کے بعد یہاں سے ریلوے کا جنکشن ختم کر دیا گیا جس کے بعد اس قصبہ کی علاقائی حیثیت ختم ہو گئی اور تاحال یہ قصبہ پسماندگی کا شکار ہے۔انگریز دور حکومت میں یہ قصبہ منٹگمری موجودہ ساہیوال کا حصہ تھا پھر 1982 میں جب اوکاڑہ ضلع بنا تو یہ دیپالپور تحصیل میں شامل ہو کر اوکاڑہ کا حصہ بن گیا۔آبادیحویلی لکھا شہر ایک ڈھکی پر آباد تھا لیکن آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ڈھکی سے نیچے اردگرد کے علاقوں میں رہائش اختیار کر لی اور یوں ڈھکی اور اس کے اطراف کا علاقہ ایک شہر کی شکل اختیار کر گیا۔oadٹاؤن کمیٹی حویلی لکھا کا دفتر جس کا سنگ بنیاد 1966 میں ڈپٹی کمشنر منٹگمری (ساہیوال) مظفر قادر نے رکھا۔
2013 کے ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ ایک ہزار تین سو بیالیس نفوس کی آبادی کے ساتھ شہر کا کل رقبہ 53 مربع کلومیٹر جبکہ حالیہ حلقہ بندیوں کے تحت شہر کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کر اسے اٹھارہ وارڈز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔مقامی صنعتحویلی لکھا کی مشہور مقامی صنعتوں میں موڑھا سازی، حقہ سازی کی صنعت شامل ہے۔ یہاں کے مقامی کاریگروں کے تیار کیے گئے حقوں کی ملک بھر میں مانگ ہے لیکن بدلتی سماجی ترجیحات کے باعث اب یہ صنعت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ذات برادریحویلی لکھا میں مرزا، دیوان، وٹو، لودھی، شیخ، آرائیں اور کھوکھر برادری کے لوگ کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ حویلی لکھا کا ایک مقامی کاریگر موڑھا تیار کرتے ہوئے
مشہور شخصیاتیہاں کی مشہور شخصیات میں سابق وفاقی وزیر خزانہ میاں یٰسین خاں وٹو مرحوم، سابق وزیر اعلیٰ اور سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد خاں وٹو، ایم این اے میاں معین احمد خاں وٹو، ایم پی اے خرم جہانگیر وٹو، سردار علی کلس، نواب علی کلس، سابق ایم پی اے دیوان اخلاق احمد شامل ہیں۔اس کے علاوہ حویلی لکھا میں ہڈی جوڑ فلک شیر بھی کافی مشہور ہیں جن سے علاج کروانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔زبانحویلی لکھا میں زیادہ بولی جانے والی زبان ماجھی پنجابی ہے لیکن اردو بولنے والے بھی یہاں موجود ہیں جو 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہوئے۔
حویلی لکھا سبزی منڈی سے لوگوں کی
اہم سرکاری عماراتیںاہم سرکاری عمارتوں میں گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز، گورنمنٹ ڈگری کالج فار گرلز، گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1، جو 1901 میں قائم ہوا اور 1920 میں اسے مڈل جبکہ 1928 میں اسے ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا۔گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ریلوے روڈ جو 1964 میں قائم ہوا اور 1984 میں مڈل جبکہ 1986 ہائی بنا۔اس کے علاوہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول منور شہید روڈ، ریلوے اسٹیشن، ڈاک خانہ، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اہم سرکاری عمارات میں شامل ہے۔
No comments:
Post a Comment